جڑی بوٹیوں کوصحت اور علاج میں جس قدر اہمیت حاصل ہے وہ کسی طبقہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جڑی بوٹیوں کو معالجات میں جس قدر اہمیت حاصل ہے وہ طبی طبقہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جڑی بوٹیوں میں ہر ایک مرض کو دور کرنے کی زیادہ طاقت موجود ہے جو اپنے غیر معمولی اثرات سے مٹی کو سونے میں تبدیلی کر سکتی ہیں اور انسان تو انسان ان جڑی بوٹیوں نے لوہا تانبا پتھر اور جواہرات تک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا اور خطرناک زہروں کو اپنا تابع اور مطیع بنا کر امرت بنایا ہے غرض اپنی بے پناہ خداد طاقت کے بل پر انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہے۔
اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جڑی بوٹیاں بھی اسی طرح سانس لیتی اور زندہ رہتی ہيں بلکہ بعض سائنسدانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ نباتات میں چھونے اور سننے کی طاقت موجود ہے جیسا کہ لاجونتی چھوئی موئی بوٹی ہے۔ اگر اس بوٹی کو آپ ذرا ہاتھ لگآئيں تو آپ کے چھوتے ہی یہ فورا سکڑ جاۓ گـی لیکن اس کے برعکس اگر کوئی عورت اس کے پتوں کو چھو لے تو ان میں کسی قسم کا سکڑاؤ پیدا نہیں ہو گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بوٹی یا کسی بھی نباتات میں جہاں سننے کی طاقت موجود ہے وہاں دیکھنے کی طاقت بھی موجود ہے۔ جڑی بوٹیوں کی زبردست طاقت کے باوجود دیسی طب کی یہ بدقسمتی کہۓ کہ معالجین نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی ہے اور زیادہ تر مغربی ادویات سازوں کی ادویات پر ہی قانع ہو کر رہ گۓ ہیں۔ ہمارے اس جمود و غفلت سے مغربی دوا سازوں نے فائدہ اٹھایا اور ہمارے ورثہ کو سائنٹیفک طریق سے دوسری شکل میں تبدیل کر کے بہت مہنگی اور زیادہ سے زیادہ مہنگی قیمت پر فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
اگر تھوڑا غور فرما ئیں تو یہی جمالگوٹہ جو کثرت سے یہاں پیدا ہوتا ہے کروٹن آئيل بن کر آ جاتا ہے ادراک (سونٹھ) سے ٹنکچر زنجی برس ملٹھی سے گلیسریزا اسی طرح پودینہ اجوائن لونگ سورنجا سونف ارنڈ وغیرہ سینکڑوں ہندوستانی جڑی بوٹیاں جو ہماری سرزمینوں کی پیداوار ہیں جن پر محنت ہمارے آباؤاجداد نے کی، اس کے فوائد اور خواص کو پرکھا اور اس کی تاثیر پرکھی ہماری کم علمی ہےجسے مغرب نے ہماری عدم توجہی سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ چالاکی سے مغربی جامہ پہنا دیا ہے۔ ہمارے اس زمانے کے حکماء پرانے زمانے کے حکماء کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے نہ ہی ادویہ سازی میں نہ ہی محنت میں۔ ہماری ساری نسل ہی شارٹ کٹ کی عادی بن چکی ہے، اگر مقررہ مقدار اور مدت سے رگڑائی نہیں کرسکتی تو الیکٹرک کھرل بنالئے، اگر اپلوں اور کوئلوں سے دوا تیارکرنا تھی تو سوئی گیس کا چولھا استعمال کرلیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دواؤں کی اثرپذیری میں فرق پڑگیا۔
دوسرے مغربی دواسازوں نے لوگوں کو فوری اثر دینے والے مرکبات سٹی رائڈز دینے شروع کردئے اور لاعلمی کی بنا پر لوگوں نے ان کا استعمال شروع کردیا۔ جو مرض کو اندر ہی دبا دیتے ہیں، وقتی فائدہ پہنچ گیا لیکن بے چاروں کو یہ علم نہیں ریا کہ یہ وقتی مفاد آئندہ جاکر کتنا بھیانک روپ دھارے گا۔ کینسر کی شکل اختیار کرے گا یا فالج کا روپ دھارے گا۔
پیارے لوگوں اپنی صحت سے پیار کرو اور طاقتور سٹرائیڈ کا استعمال ترک کردو، اللہ آپکو شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔
اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جڑی بوٹیاں بھی اسی طرح سانس لیتی اور زندہ رہتی ہيں بلکہ بعض سائنسدانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ نباتات میں چھونے اور سننے کی طاقت موجود ہے جیسا کہ لاجونتی چھوئی موئی بوٹی ہے۔ اگر اس بوٹی کو آپ ذرا ہاتھ لگآئيں تو آپ کے چھوتے ہی یہ فورا سکڑ جاۓ گـی لیکن اس کے برعکس اگر کوئی عورت اس کے پتوں کو چھو لے تو ان میں کسی قسم کا سکڑاؤ پیدا نہیں ہو گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بوٹی یا کسی بھی نباتات میں جہاں سننے کی طاقت موجود ہے وہاں دیکھنے کی طاقت بھی موجود ہے۔ جڑی بوٹیوں کی زبردست طاقت کے باوجود دیسی طب کی یہ بدقسمتی کہۓ کہ معالجین نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی ہے اور زیادہ تر مغربی ادویات سازوں کی ادویات پر ہی قانع ہو کر رہ گۓ ہیں۔ ہمارے اس جمود و غفلت سے مغربی دوا سازوں نے فائدہ اٹھایا اور ہمارے ورثہ کو سائنٹیفک طریق سے دوسری شکل میں تبدیل کر کے بہت مہنگی اور زیادہ سے زیادہ مہنگی قیمت پر فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
اگر تھوڑا غور فرما ئیں تو یہی جمالگوٹہ جو کثرت سے یہاں پیدا ہوتا ہے کروٹن آئيل بن کر آ جاتا ہے ادراک (سونٹھ) سے ٹنکچر زنجی برس ملٹھی سے گلیسریزا اسی طرح پودینہ اجوائن لونگ سورنجا سونف ارنڈ وغیرہ سینکڑوں ہندوستانی جڑی بوٹیاں جو ہماری سرزمینوں کی پیداوار ہیں جن پر محنت ہمارے آباؤاجداد نے کی، اس کے فوائد اور خواص کو پرکھا اور اس کی تاثیر پرکھی ہماری کم علمی ہےجسے مغرب نے ہماری عدم توجہی سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ چالاکی سے مغربی جامہ پہنا دیا ہے۔ ہمارے اس زمانے کے حکماء پرانے زمانے کے حکماء کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے نہ ہی ادویہ سازی میں نہ ہی محنت میں۔ ہماری ساری نسل ہی شارٹ کٹ کی عادی بن چکی ہے، اگر مقررہ مقدار اور مدت سے رگڑائی نہیں کرسکتی تو الیکٹرک کھرل بنالئے، اگر اپلوں اور کوئلوں سے دوا تیارکرنا تھی تو سوئی گیس کا چولھا استعمال کرلیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دواؤں کی اثرپذیری میں فرق پڑگیا۔
دوسرے مغربی دواسازوں نے لوگوں کو فوری اثر دینے والے مرکبات سٹی رائڈز دینے شروع کردئے اور لاعلمی کی بنا پر لوگوں نے ان کا استعمال شروع کردیا۔ جو مرض کو اندر ہی دبا دیتے ہیں، وقتی فائدہ پہنچ گیا لیکن بے چاروں کو یہ علم نہیں ریا کہ یہ وقتی مفاد آئندہ جاکر کتنا بھیانک روپ دھارے گا۔ کینسر کی شکل اختیار کرے گا یا فالج کا روپ دھارے گا۔
پیارے لوگوں اپنی صحت سے پیار کرو اور طاقتور سٹرائیڈ کا استعمال ترک کردو، اللہ آپکو شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔
No comments:
Post a Comment