Friday 22 November 2013

دل کی دیکھ بھال کے 49 نسخے

 انسانی جسم میں دل ودماغ، یہی دو عضو سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ دل صحت مند رہے، تو بدن جبکہ دماغ تندرست رہے، تو روح توانارہتی ہے۔ لہٰذا ہر ذی حس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل کی خوب حفاظت کرے۔

ذیل میں قلب کی دیکھ بھال کرنے والے ایسے 49نسخے پیش خدمت ہیں جو سیکڑوں برس پر محیط ماہرین کی تحقیق و تجربات کا نچوڑ ہیں۔ اگر ان پر صدق دل سے عمل کیا جائے، توآپ اتنی طویل عمر ضرور پاسکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو کرپٹ حکمران طبقے سے پاک اور دنیاکا ترقی یافتہ اور خوشحال ملک دیکھ سکیں۔
(1)سگریٹ کے دھوئیں سے بھی بچیے…
امریکی ڈاکٹروں نے دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن ہفتے میں تین بار 30منٹ تک سگریٹ کے دھوئیں کی زد میں رہیں، ان میں امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خدشہ 26فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا کبھی سگریٹ کے دھوئیں والے ماحول میں نہ بیٹھیں۔

(2)سرخ گوشتکھائیے…
اعتدال میں سرخ گوشت کھانا مفیدہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرخ گوشت مامون نظام کو تقویت پہنچانے والا معدن یلینیم رکھتا ہے اور حیاتین ہی کی اقسام بھی جو انسانی جسم میں ہومولینٹین کی سطح کم رکھتا ہے۔ اس پروٹین کی بڑھتی شرح دل کے لیے خطرناک ہے۔ مزید برآں سرخ گوشت کی50 فیصد چکنائی قلب دوست مونو ان سیچو ریٹڈ قسم سے تعلق رکھتی ہے۔

(3)ڈرائونی فلم دیکھیے…ڈاکٹروںکا کہنا ہے کہ جوشے بھی دل کی دھڑکن بڑھادے وہ اُسے طاقت ور بناتی ہے۔ مثلاً ڈرائونی فلم دیکھنا، اچھی کتاب پڑھنا، کرکٹ کھیلنا یا عشق میں مبتلا ہونا۔دراصل جب بھی دل کی دھڑکن تیز ہو، تو یہ اس کی دھڑکن کو ازسر نو شروع (Reset)کرنے کے مترادف ہے۔ یوں اس کی کارگردگی بہتر ہو جاتی ہے۔
(4)گردوغبار میں ورزش نہ کیجیے…آلودہ ماحول میں ورزش کرنے سے خون میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں دل کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
(5)تالاب میں غوطہ لگائیے…برطانوی ماہرین نے بعداز تجربات دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن شدید جسمانی سرگرمی مثلاً تیرنے یا پہاڑ پر چڑھنے (ہائکنگ) سے محض 50حرارے بھی جلائیں، ان میں امراض قلب سے مرنے کا خطرہ 62فیصد کم ہوجاتا ہے۔ تاہم ہلکی  ورزش مثلاً چلنے یا گالف کھیلنے سے یہ فائدہ نہیں ہوتا۔مگر یاد رہے آپ کو تیرنا آتا ہو۔
(6)کولیسٹرول کا مقابلہ چکنائی سے کیجیے…ایک تجربے میں آسٹریلوی ماہرین نے تین ماہ تک سترہ مردوزن کو گری دار میوے کھلائے۔ جب چوتھے ماہ ان کامعاینہ ہوا، تو مردوزن میں 3تا 5فیصد کولیسٹرول کم پایا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ گری دار میوے مونوان سیچوریٹڈ چکنائی کثیر مقدار میں رکھتے ہیں۔
(7)سائیکل چلا کر ڈپریشن بھگائیےطبی سائنس دریافت کرچکی کہ جو انسان ڈپریشن کا شکار ہوں، وہ دوسروں کی نسبت جلد امراضِ قلب کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کئی مردوزن ادویہ کھا کر ڈپریشن بھگا نے کی سعی کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ بہترین طریقہ کوئی بھی ورزش کرنا مثلاً سائیکل چلانا یا بیڈمنٹن کھیلناہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک تجربے میں ڈپریشن زدہ مردوزن پر تین ماہ بعد ادویہ اور ورزش کے ایک جیسے اثرات پائے گئے۔
(8)روزانہ 20منٹ مراقبہ کریں…امراضِ قلب میں مبتلا افراد خاص طور پر روزانہ صرف20منٹ مراقبہ کرنے کے لیے نکالیں۔ یہ روحانی عمل گھبراہٹ اور بے چینی سے نجات دلا کر انسان کو پرسکون کرتا ہے۔ ماہرین امراضِ قلب کا کہنا ہے کہ دل کے جو مریض ڈپریشن کا شکار ہوں، وہ دوسروں کی نسبت جلد چل بستے ہیں۔
(9)ہوا بھرا تھیلا(Punching bag)خرید لیجیےہارورڈ یونیورسٹی کے محققوں نے دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن اپنا غصہ باہر نکال دیں، امراضِ قلب میں بہت کم مبتلا ہوتے ہیں۔ جبکہ دبا ہواغصہ دل کو لے بیٹھتا ہے۔
(10)اَسپرین لیجیے…امریکی و برطانوی ماہرین نے امراضِ قلب دور کرنے میں اُسپرین کو مفید پایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ خون کا دبائو کم کرتی ہے۔ تجربات سے پتا چلا ہے کہ جو مردوزن یہ دوا باقاعدگی سے کھائیں، ان کا قلب صحت مند رہتاہے۔ مؤثر فائدہ اٹھانے کے لیے رات کو سونے سے قبل اسپرین لیجیے۔
(11)کرین بیری (Cranberry)رس پیجیے…امریکی ماہرین نے ایک تجربے میں فربہ مردوزن کو ایک ماہ تک کرین بیری کا رس پلایا۔ ان میں بُرا (HDL)کولیسٹرول 10فیصد تک ختم ہوگیا۔یہ کمی دل کا دورہ پڑنے کا امکان 40فیصد تک ختم کردیتی ہے۔ لہٰذا جیب اجازت دے، تو رس ضرور استعمال کیجیے۔ امریکا میں اسے’’ سُپر فوڈ‘‘کی حیثیت حاصل ہے۔
(12)صبح ناشتا ضرور کیجیے…جدید تحقیق نے افشا کیاہے کہ جو لوگ صبح ناشتا کریں، عموماً ان کا وزن نہیں بڑھتا۔ نیز ان میں انسو لین مزاحمت بھی جنم نہیں لیتی۔دو خرابیاں دل کی بیماریاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لہٰذا صبح ناشتاکرنا معمول بنا لیجیے۔
(13)غذا میں فولک ایسڈ شامل رکھیے…فولک ایسڈ وٹامن ہی کی ایک قسم ہے۔ یہ حیاتین نئے خلیے بنانے میں کام آتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے جو مردوزن اس کی مطلوبہ مقدار لیں، وہ امراضِ قلب میں کم ہی مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذا فولک ایسڈ رکھنے والی غذائیں روزمرہ خوراک میں شامل رکھیے۔ یہ حیاتین گائے کے جگر، ساگ، چاول، شاخ گوبھی اور پھلیوں میں ملتا ہے۔ بچوں کی روزانہ ضرورت 200جبکہ بالغوں کی 400ایم سی جی (مائکرو گرام) ہے۔
(14)سیڑھیاں چڑھیے…ایک تجربے سے افشا ہوا ہے کہ جو لوگ روزانہ چار پانچ ہزار قدم پیدل چلیں، ان میں خون کا دبائو معمول پر رہتا ہے۔ یوں وہ امراضِ قلب کا شکار نہیں ہوتے۔
(15)پتوں والی سبزیاں کھائیے…
سبزیاں اور انڈے کی زردی اپنے اندر ایک صحت بخش کیمیائی مادہ، لوتین(Lutein)رکھتی ہیں۔ یہ مادہ قلب کو بیماریوں سے بچانے والے ضِد تکسیدی مادے خلیوں اور بافتوں تک پہنچاتا ہے۔
(16)ثابت اناج استعمال کیجیے…
امریکی محققوں نے دریافت کیا ہے کہ ثابت اناج کھانے والوں میں دل کی بیماریاں جنم لینے کا خطرہ 20فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

(17) چائے لیجیے…
امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کا مشورہ ہے کہ دن میں دو پیالی چائے ضرور لیجیے۔ یوں امراضِ قلب نہیں چمٹتے۔ وجہ، چائے میں فلاوونوئیڈ (Flavonoids) مرکبات پائے جاتے ہیں۔ یہ مرکب نہ صرف نالیوں میں تنائو دور کرتے ہیں بلکہ خون کو بھی پتلا کر دیتے ہیں۔ یوں نالیوں میں لوتھڑے پیدا نہیں ہوتے۔
(18)ورزش کے بعد بی پی (بلڈپریشر) چیک کیجیے…
اس عالم میں چیک کرنے پر نمبر بلند (ہائی) ہوں گے۔ لیکن یوں صحت کی مجموعی حالت بھی پتا چل جاتی ہے۔ اگر یہ چیک ڈاکٹر کے ذریعے کرایا جائے، توزیادہ بہتر ہے۔
(19)کیفین سے پرہیز ضروری ہے…اس مادے کے حامل مشروبات انسان میں خون کا دبائو بڑھاتے ہیں۔ عموماً فی منٹ دل کی دھڑکن دو بار بڑھ جاتی ہے۔ یہ حالت امراضِ قلب میں مبتلا انسان کو ’’ڈینجرزون‘‘میں پہنچانے کے لیے کافی ہے۔
(20)دوست بنیے اور بنائیے…دوستی قدرت کی عظیم نعمت ہے۔ اب یہ طبی لحاظ سے بھی مفید ثابت ہوگئی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تنہا انسان ’’ڈپریشن‘‘ کا صحیح طرح مقابلہ نہیں کر پاتا اور بہت جلد امراضِ قلب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مگر دوست احباب رکھنے والے مردوزن پریشانی اور بے چینی سے چھٹکارا پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
(21)گہرے رنگ کی چاکلیٹ منتخب کیجیے…چائے کی طرح کوکا بھی خون پتلا کرنے والے فلاوونوئیڈ مادے رکھتا ہے۔ نیز چاکلیٹ کی ایک تہائی مقدار اولیک تیزاب رکھتی ہے۔ یہی مفید مونوان سیچوریٹڈ چکنائی زیتون کے تیل میں ملتی ہے۔ تاہم یاد رکھیے، فلاوونوئیڈ گہری رنگت والی چاکلیٹ میں ملتی ہے۔
(22)نمک کو کم کریں…اگر آپ کا وزن زیادہ ہے،اور بلڈ پریشر گھی تو نمک ہرگز استعمال نہ کریں۔ ورنہ دل کی کسی بیماری سے جاں بحق ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
(23)بیگم سے تعلقات خوشگوار رکھیے…امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے محققوں نے تجربات سے جانا ہے کہ پریشان کن لمحات میں اگر میاں یا بیوی محض دس منٹ تک اپنے ساتھی کا ہاتھ تھامیں، تو بلڈ پریشر اور نبض کی رفتار کم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
(24)ٹماٹر کی چٹنی معتدل مقدار میںکھائیے…ٹماٹر میں لائکو پین مادہ ملتا ہے۔ یہ خون کی نالیوں میں کولیسٹرول جمع نہیں ہونے دیتا۔ لہٰذا ٹماٹر کی خالص چٹنی معتدل مقدار میں استعمال کیجیے۔
(25)وٹامنز بی کی روزانہ مطلوبہ مقدار لیجیے…جدید طب نے دریافت کیا ہے کہ جن لوگوں کی غذا میں وٹامنز بی کی مقدار کم ہو، وہ امراضِ قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(26)مچھلیوں سے رغبت رکھیے…مچھلیوں میں ایک مادہ، اومیگا تھری ملتا ہے۔ یہ دل کے عضلات کو قوی کرتا، فشار خون کم کرتا اور خون میں لوتھڑے بننے سے روکتا ہے۔ نیز جسم میں جان لیوا سوزش بھی پیدا نہیں ہونے دیتا۔ مزید برآں مچھلی پروٹین بھی فراہم کرتی ہے۔
(27)السی کے بیج کھائیے…جو مردوزن مچھلی نہیں کھاتے، وہ السی کے بیج غذا میں شامل رکھیں۔ یہ اومیگا تھری مادوں کا عمدہ ذریعہ ہیں۔
(28)دوڑتے ہوئے تنوع رکھیے…ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انسان کا 10تا 15فیصد وزن بھی کم ہوجائے، تو انسانی جسم میں ذخیرہ شدہ چربی 25تا 40فیصد کم ہوجاتی ہے اور وزن کم کرنے کا ایک طریقہ دوڑنا ہے۔ اب تجربات سے افشا ہوا ہے کہ انسان بھاگتے ہوئے تیز اور کبھیآہستہ دوڑے، تو یوں وزن یکساں رفتار سے بھاگنے کی نسبت جلد کم ہوتا ہے۔
(29)کشتی رانی کیجیےڈاکٹر دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ کشتی رانی کیجیے۔ یہ بھاگنے سے بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کشتی چلاتے ہوئے زیادہ عضلات استعمال ہوتے ہیں۔ دل پورے جسم میں زیادہ خون پمپ کرتاہے۔جس کے باعث یوں قلب کو مجموعی صحت حاصل ہوتی ہے۔
(30)فلو کا ٹیکا لگوائیے…برطانوی ڈاکٹروں نے بعداز تحقیق جانا ہے کہ جو مردوزن فلو کا ٹیکا لگوائیں، وہ نہ لگوانے والوں کی نسبت امراضِ قلب میں مبتلا ہوتے ہیں۔
(31)پانی سے منہ نہ موڑیے…امریکی لومانڈا یونیورسٹی کے محقق زوردار انداز میں سبھی کو مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ پانچ چھ گلاس پانی ضرور پیجیے۔ یوں دل کی بیماریاں چمٹنے کا خطرہ 60فیصد تک کم ہوجاتا ہے…سگریٹ نوشی ترک کرنے، بُرا (ایل ڈی ایل) کولیسٹرول کم کرنے اور وزن گھٹانے سے بھی انسان کو یہی فائدہ ملتا ہے۔
(32)گریپ فروٹ کھائیے…یہ بڑے کام کا پھل ہے۔ صرف ایک گریپ فروٹ روزانہ کھانے سے خون کی نالیوں میں رکاوٹیں دور ہوتی ہیں، بُرے کولیسٹرول کی مقدار 10فیصد تک کم ہوتی اور بلڈ پریشرنارمل رہتا ہے۔
(33)ادرک غذا میں شامل رکھیے…یہ قدرتی جڑی بوٹی کولیسٹرول کم کرتی اور چھوت (الرجی) کو دور بھگاتی ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہارٹ اٹیک یا آپریشن کے بعد دل کو صحت مند بناتی ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جن جانوروں کو روزانہ ادرک کھلائی جائے، وہ دوسروں کی نسبت دل کی حفاظت کرنے والے ضِد تکسیدی مادے زیادہ رکھتے ہیں۔
(34)کرومیم لیجیے…جن مردوزن کی غذا میں کرومیم کم ہو، وہ دوسروں کی نسبت جلد امراضِ قلب کا نشانہ بنتے ہیں۔ بالغ کو روزانہ 200تا 400مائیکر وگرام کرومیم درکار ہوتا ہے اور عموماً غذا سے یہ مقدار حاصل نہیںہوپاتی۔ لہٰذا جو دل کے مریض ہوںِ وہ بذریعہ دوا یہ معدن لیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ملٹی وٹامن لیںجس میں کرومیم پائکولائنیٹ (Picolinate)موجود ہو۔ کرومیم کی یہ مصنوعی قسم انسانی بدن میں باآسانی جذب ہوتی ہے۔
(35)اُٹھک بیٹھک کام آئے گی…جی ہاں!کینڈین ماہرین نے آٹھ ہزار مردوزن پر تجربہ کرنے کے بعد جانا ہے کہ جو ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اُٹھک بیٹھک کرے۔ وہ دوسروں کی نسبت ’’13سال‘‘ زیادہ جیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پیٹ کے عضلات مضبوط رکھتا ہے اور وہاں چربی کا نام و نشان نہیں ہوتا اور پیٹ پر چربی جتنی کم ہو، دل کی بیماریاں بھی اتنی ہی کم چمٹتی ہیں۔
(36)پھلیاں کھائیے…اللہ تعالی کی یہ نعمت انسانی بدن میں ہوموسیسٹائن کم کرنے والا معدن، فولیٹ اور کولیسٹرول روک ریشہ رکھتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو مرد و زن ہفتے میں تین چار بار پھلیاں کھائیں، ان میں امراضِ قلب پیدا ہونے کا امکان بہت گھٹ جاتا ہے۔
(37)ہاتھ دھوئیے…
جرمن سائنس دانوں نے 570 افراد پر تین برس تحقیق کی۔ اس تحقیق سے انھوں نے یہ دریافت کیا کہ جن افراد میں بیماریوں سے لڑنے والے ضدِ جسم (Antibodies) زیادہ ہوں، ان کے دل، گردن اور ٹانگوں کی نالیوں میں لوتھڑے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنی ظاہری و اندرونی جسمانی صفائی پرخاص توجہ دیجیے۔ واضح رہے صفائی کے باعث ضدِ جسم مادے کم جنم لیتے ہیں۔
(38) شاعری کی کتا ب پڑھیے…سوئس ماہرین نے بعداز تجربہ جانا ہے کہ جو مردوزن روزانہ آدھا گھنٹا شاعری بلندآواز سے پڑھیں، ان کا ذہنی و جسمانی دبائو کم ہو جاتا ہے۔ یہ عمل دل کی بیماریاں چمٹنے نہیں دیتا۔
(39)چینی کے بجائے شہد استعمال کیجیے…امریکی الینائے یونیورسٹی نے دریافت کیا ہے کہ شہد طاقت ور ضدِ تکسیدی مادے رکھتا ہے۔ یہ مادے امراضِ قلب کا خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف چینی کا متواتر استعمال انسانی بدن میں اچھے ایچ ڈی ایل کی سطح کم کردیتا ہے۔ یوں دل کی بیماری لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا چینی کے بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ شہد سے ناتا جوڑیے۔
(40)مسکرائیے…ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین پچھلے 10برس سے 1300مردوزن کی صحت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس تحقیق سے یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ جو بالغ عموماً خوش و خرم رہتے اور مثبت انداز فکر رکھتے ہیں، امراضِ قلب ان کے قریب نہیں پھٹکتے۔
(41)پیشاب نہ روکیے…یونیورسٹی آف چائنا میں محققوں نے دل کی بیماریوں میں مبتلا 100افراد پر مختلف تجربے کیے۔ ایک تجربے سے افشا ہوا کہ جو افراد طویل عرصہ پیشاب روکے رکھتے ہیں، اُن میں دل کی دھڑکن فی منٹ نو بار بڑھ جاتی ہے، جبکہ خون کا بہائو بھی 19فیصد تک سکڑ جاتا ہے۔ یہ دونوں عمل دل کا دورہ پیدا کرسکتے ہیں۔
(42)تیزآنچ پر کھانا مت پکائیے…جب غذا تیز آنچ پر پکائی جائے، تو اُسے کھانے سے انسانی جسم میں خون کے ’’ایڈوانسڈ گلائسیشن اینڈ پروڈکٹس‘‘ نامی مرکبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مرکبات خلیے کی لچک کم کرتے اور امراضِ قلب جنم لینے کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ لہٰذا کھانا ہمیشہ ہلکی آنچ پر پکائیے اور صحت مند رہیے۔
(43)گھر میں کاربن مونوآکسائیڈ سے خبردار رہیے…گھر میں کئی اشیا مثلاً گیس ہیٹر، واشنگ مشین، ڈرائر، جنریٹر اور پٹرول سے چلنے والی تمام اشیا کاربن مونوآکسائیڈ گیس رکھتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے یہ گیس لیک ہوجائے، تو وہ چند گھنٹے میں انسان کو مار ڈالتی ہے۔ لیکن اس گیس کی مسلسل لیک ہوتی معمولی مقدار بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ دراصل یہ خون میں لوتھڑے بناتی اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ لہٰذا گھر میں دھیان رکھیے، کسی شے سے یہ گیس خارج تو نہیں ہورہی؟

(44)پوری نیند لیجیے…
برطانوی سائنس دان 70ہزار مردو خواتین کی صحت پر دس برس تک تحقیق کرتے رہے۔ اس تحقیق سے ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جو افراد عموماً پانچ گھنٹے یا اس سے کم نیند لیں، ان میں دل کی بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس خرابی کی ایک وجہ یہ ہے کہ نیند کی کمی کا شکار لوگوں میں فیبر نیوجن مادے کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہی پروٹینی مادہ خون میں لوتھڑے بننے میں مدد دیتا اور دل و دماغ تک خون جانے سے روکتا ہے۔
(45)آلو کے چپس سے پرہیز بہتر…امریکا میں محققین نے 14برس تک 80ہزار مردوزن کی غذائی عادات پہ نظر رکھی۔ جس سے انکشاف ہوا کہ وہ افراد سب سے زیادہ امراضِ قلب میں مبتلا ہوئے ہیں جن کی غذا میں ٹرانس فیٹی ایسڈ(Trans Fatty Acids)شامل تھے۔ چربی کی یہ قسم انسانی جسم میں برے ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح بڑھاتی ہے جبکہ ایل ڈی ایل کی سطح گھٹاتی ہے۔ ٹرانس فیٹی ایسڈ آلو کے چپس،فرنچ فرائز وغیرہ میں بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا دل کی بیماریوں سے بچنا ہے، تو انھیں استعمال مت کیجیے۔
(46) دانت نکال باہر کریں…بیس سال کی عمر تک ’’65فیصد‘‘ مرد وزن میں ایک ایسی عقل ڈاڑھ (Wisdom Tooth)ضرور ہوتی ہے جو صحیح طرح نکل نہیں پاتی۔ بہت سے مردوزن اسے بے ضرر سمجھ کر یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ جلد یا بدیر عقل ڈاڑھ کی خالی جگہ جراثیم کا گڑھ بن جاتی ہے۔ یہ جراثیم پھر متفرق بیماریاں پیدا کرتے ہیں جن میں پریوڈونسٹل مرض بھی شامل ہے۔ یہ مرض دل کی بیماریوں سے متعلق پایا گیا ہے۔
(47)ساتھی کو کبھی دھوکا نہ دیجیے…لندن کے ڈاکٹروں نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً جو شوہر اپنی بیگم سے مخلص نہیں ہوں، وہ محبوبہ کے ساتھ گھومتے پھرتے جلد ہارٹ اٹیک کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ شاید ضمیر کی خلش ان کے دل پر زبردست دبائو ڈال کر اُسے’’کیس‘‘ کردیتی ہے۔
(48)کد و کھانے میں شامل رکھیے…اسی سبزی کے بیج خصوصاً میگنشیمکاخزانہ ہیں۔ قلب صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ کم از کم 420ملی گرام یہ معدن ضرور غذا میں شامل ہو۔ میگنیشم کی کمی سے انسان میں بلڈ پریشر جنم لیتا ، کولیسٹرول کی سطح بڑھتی اور نالیوں میں لوتھڑے بننے لگتے ہیں۔
(49)پکانے کا تیل تبدیل کردیں…بھارت میں ماہرین نے تجربات سے دریافت کیا ہے کہ تل کاتیل بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔ دوران تجربہ افراد کو مکئی یا نباتاتی کھانے کا تیل نہیں بلکہ تلوں سے بنا تیل دیا گیا، تو ان کا بلند فشار خون نارمل ہوگیا۔ لہٰذا خدانخواستہ اگر آپ دل کی بیماری میں مبتلا ہیں، تو جیب کی اجازت پر تلوں کا تیل استعمال کیجیے۔

بچوں کے مسائل

١۔ہربچے کیلئے ماں کا دودھ سب سے بڑی نعمت ہے، جس طرح ماں کا دنیا میں کوئی بدیل نہیں اسی طرح ماں کے دودھ کا بھی کوئی ثانی نہیں، ماں کا دودھ خاص طور پر پیدائش کے دوسرے دن سے لیکر چوتھے دن تک انتہائی قیمتی اور بچے کے کمزور جسم کیلئے معدنیات اور وٹامنز سے بھر پور ٹانک کا درجہ رکھتا ہے۔
٢۔تین ماہ تک بچے کو بلا وجہ اٹھانا ،گھمانا پھرانا بہتر نہیں کیوںکہ اس کا جسم کمزور ہوتا ہے، بچہ کوماں کے قریب رکھنا چاہیے تاکہ ماں کے جسم کی گر می اسے ملتی رہے۔
٣۔چار ماہ کے بچے کو دودھ کے ساتھ ساتھ دیگر غذائیں بھی دی جائیں جیسے بارلی ، گیہوں کا دلیہ،نرم گوشت وغیرہ۔
٤۔جب بچے چار ماہ کے ہوجاتےہیں تو وہ بولنے کی کو شش کرتے ہیں خواہ کسی کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس وقت اس کی زبان پر شہد لگا نا چاہیے، ان شاء اللہ وہ جلد بولنے لگیں گے اور زبان بھی صاف ہوجائے گی۔
٥۔جب بچے کا دانت نکل رہا ہو تو ان کے مسوڑوں پر مکھن یا دیسی گھی لگانا چاہیے ، عام طور پر بچے کا دانت ساتویں مہینہ سے لیکر دسویں مہینہ کے درمیان نکلتا ہے ان دنوں انتہائی کوشش کریں کہ بچے کوئی سخت چیز منہ میں نہ ڈالیں، نرم غذا دی جائے زیادہ پیٹ بھرا نہ رہے ۔
٦۔بچے اگر بھوک کی وجہ سے روئے تو ماں باپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ رونا صحت کیلئے مفید ہے، رونے سے بچے کے پٹھے مضبوط ہوںگے اور انتڑ یاں کھلیں گی سینہ چوڑا ہوگا دماغ کو گرمی پہونچے گی بھوک بڑھے گی۔
٧۔بچے کوڈرا دینے والی اور گبھراہٹ پیدا کرنے والی سخت اور خوفناک آوازسے بچایا جائے جیسے کتوں کے بھوکنے کی آواز بلیوں کے لڑنے کی آواز وغیرہ،اسی طرح خوفناک اور ڈراؤنی مناظر سے بھی دور رکھا جائے ، ایسے کیڑے مکوڑے جنہیں دیکھ کر بڑے لوگوں کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں بچوں کو نہ دکھایا جائے کیوں کہ بچہ کا دماغ نازک اور کمزور ہوتا ہے خدا نخواستہ کبھی اگر ایسا ہوجائے تو ماں کو چاہیے کہ بچے کو فورا گود میں اٹھا لے ،دودھ پلائے او ر ہنسانے کی کوشش کرے تاکہ بچے کے ذہن و دماغ سے ڈر ختم ہو جائے اور پھر اس کو سلادے۔
٨۔بچہ کو ننگا نہیں رکھنا چاہیے لنگوٹ وغیرہ ضرور پہنادیں ،جب بچے کے اعضاء میں قوت پیدا ہو جائے یعنی اس کا بدن مضبوط ہو جائے تو اسے زمیں پر بیٹھایا جائے اور دھیرے دھیرے اسے کھڑے ہونے اور چلنے کی مشق کرائی جائے، ان شاء اللہ وہ کچھ دنوں کے بعد خود چلنے لگیں گے۔
٩۔وقت سے پہلے بچے کو چلنے پر مجبور نہ کریں کیوں کہ ایسا کرنے سے بوجھ کی وجہ سے بچے کی ٹانگیں ٹیڑھی بھی ہوسکتی ہیں۔
١٠۔اگر ممکن ہو تو مکمل دو سال تک ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے، اگر کوئی مجبوری ہے تو دو سال سے پہلے بھی چھڑایا جا سکتا ہے۔
١١۔ماں کو بچے سے دودھ چھڑاتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
٭دودھ سردیوں یا موسم ربیع میں چھڑایا جائے۔
٭بچے جب بیمار ہوں یا بہت کمزور ہو ں تب دودھ نہ چھڑائیں۔
٭دودھ آہستہ آہستہ چھڑایا جائے اور آہستہ آہستہ بچے کو دوسری غذا کھانے کا عادی بنایا جائے، اچانک دودھ چھڑانے سے بچے کے صحت پر اثر پڑتا ہے ۔
٭دودھ چھڑاتے وقت دہی ،لسی یا دودھ میں پکا ہوا جو کا دلیہ وغیرہ بچے کیلئے مناسب ہوتا ہے۔
٭بچے کو ہمیشہ تازہ کھانا دینا چاہیے باسی کھانا ہر گز نہ دیں،کچھ مائیں لا پرواہ ہوتی ہیں وہ باسی بارلی یا باسی دودھ گرم کرکے پلادیتی ہیں اس سے بچے کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔
٭بچے کو ایک وقت میں ایک ہی کھانا کھلانا چاہیے یہ معدہ کیلئے زیادہ مفید ومناسب ہوتا ہے ایک ہی وقت چار پانچ قسم کے کھانے کھلانے سے ہضم کرنے میں بچے کو دشواری ہوتی ہے۔
٭مقررہ وقت میں بچےٍ کو کھانا کھلائیں تاکہ وہ کسی نظام کا پابند ہو، ایسا ہرگز نہ کریں کہ جب آپکو فرصت ملی بچے کو کھلا پلا دیا۔
٭بچے کا کھانا کپڑا ،اس کا برتن بہت صاف و ستھرا ہونا چاہیے اگر گندہ ہوگا تو بچے کے بیمار ہونے کا امکان ہے ۔
١٢۔بچے پر دباؤ ڈال کر ضرورت سے زیادہ کھانے پر مجبور نہ کریں کیوںکہ نہ صرف بچوں بلکہ ہرانسان کیلئے وہی کھانا نفع بخش ہوتا ہے جو مزاج کے موافق ہو اور چاہت کے ساتھ کھایا جائے۔
١٣۔بچے کو کھانا کھلانے کے بعد فورا زیادہ ٹھنڈا پانی نہیں پلانا چاہیے کیوںکہ اس سے کھانا ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہت سی بیماریاں پید ہوتی ہیں۔

قبض 70 بیماریوں کی ماں

قبض جسے عربی میں حصر اور انگریزی میں Constipation کہتے ہیں اتنا عام مرض ہے کہ محتاج تعارف نہیں۔ اس کے نقصانات اور نتائج جتنے بھیانک ہیں عوام اس کے خطرات سے اتنے ہی لا پروا ہیں۔ 

پاخانہ کا روزانہ جسم سے خارج نہ ہونا بلکہ دوسرے یا تیسرے اور چوتھے روز آنا یا کم مقدار میں مینگنیوں کی شکل میں یا سخت حالت میں دن میں کئی بار آنا قبض کہلاتا ہے۔ 


جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہ منہ میں لعابِ دہن کے ساتھ مل کر معدے اور چھوٹی آنت میں پہنچتا ہے۔ یہاں خوراک پکنا شروع ہوتی ہے اس کے رقیق اور صاف اجزا جذب ہو کر جگر اور مجری الصدر میں چلے جاتے ہیں اور باقی حصہ جو پھوک کی طرح ہوتا ہے آنتوں کی حرکت اور صفراء کی وجہ سے بڑی آنت میں سے ہوتا ہوا امعاء مستقیم میں جمع ہو جاتا ہے پھر ایک مناسب وقفہ کے بعد ناقابل برداشت ہو کر نیچے کو حرکت کرتا ہے۔ اگر غذا کا یہ فضلہ خارج نہ ہو اور بری آنت میں پڑا رہے تو بے شمار جان لیوا امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ضعف قلب، بلند فشارِ خون، دل کی گھبراہٹ، غشی، دل کی تیز دھڑکن، دردِ سر، نزلہ زکام، ضعف دماغ، غنودگی، تبخیر، تھکاوٹ، ہر وقت ہلکا ہلکا بخار رہنا، آنکھ کان اور ناک کی بیماریاں، اپنڈکس (ورم زائدہ اعور)، گردوں اور جگر کی بیماریاں، بواسیر، بھوک کی کمی، دردِ شکم، ورم جگر، جوڑوں کا درد، یرقان، خون کی کمی اور انتڑیوں اور پتہ میں پتھریاں وغیرہ وغیرہ۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قبض ام الامراض ہے۔

قبض کی ۳ وجوہات ہیں۔

۱۔پہلی وجہ ناقص غذا ہے۔ نان، کلچے، چنے، جو، باجرے اور میداہ کی روٹی۔ ثقیل، چربیلی اور دیر سے ہضم والی غذائیں، وہ غذائیں جو خشک ہوں یا جن میں رطوبت کم ہو تب بھی قبض کا سبب بنتی ہیں۔

۲۔ آنتوں کے اندر ایک قسم کی قدرتی حرکت ہوتی ہے، جب یہ حرکت سست ہوتی ہے تو قبض لاحق ہو جاتی ہے۔

۳۔ گردوں کے راستے جسمانی رطوبتوں کا زائد مقدار میں خارج ہونا، قے کی زیادتی وغیرہ سے بھی قبض ہو جاتی ہے ان کے علاوہ بواسیر، آنتوں کی سوزش اور موٹاپا بھی قبض کا باعث بنتے ہیں۔ قبض کے مریض کو پانی کثرت سے پینا چاہیے اس سے قبض کشائی ہو جاتی ہے۔

قبض دور کرنے کے لیے ورزش اور سیر بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ چند تدبیریں بھی اکثر اوقات قبض کشائی کا باعث بنتی ہیں۔

۱۔ علی الصباح بیداری کے بعد بستر پر آنکھیں بند کر کے بیٹھیں اور دماغ کو دیگر تمام خیالات سے پاک کر کے ذہن میں یہی تصور لائیں کہ مجھے قضائے حاجت ہو رہی ہے اور اگر میں اُٹھ کر بیت الخلا میں نہ گیا تو یہیں فارغ ہو جاؤں گا۔ اس خیال کے بار بار دہرانے سے قبض اکثر اوقات دور ہو جاتی ہے۔

۲۔ مسواک جہاں دانتوں کی بے شمار امراض کا علاج ہے وہاں اس کے استعمال سے قبض کا بھی قلع قمع ہوتا ہے۔

۳۔ کھانا کھانے کے دوران نیم گرم پانی پینا بھی قبض کا قدرتی علاج ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے چین کی سرحد پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں چین سے آنے والے جتنے بھی لوگ تھے ان کے پاس تھرماس تھے۔ پوچھا کہ یہ کس مقصد کے لیے ہیں، تو ان کا سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ان میں ہم گرم پانی رکھتے ہیں۔ جب بھی ہمیں پیاس لگے تو یہی پانی پیتے ہیں۔ انہوں نے اس کا ایک فائدہ یہ بتایا کہ انہیں قبض نہیں ہوتی۔

۴۔ برصغیر کے لوگوں کی عادت ہے کہ آٹا چھان کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ عادت درست نہیں ہے۔ انہیں چاہیے بغیر چھانے آٹے کی روٹی استعمال کریں۔ اناج کے چھلکے میں ایک ایسا جوہر جو طاقت بخشتا ہے اور قبض کو بھی دور کرتا ہے۔

۵۔ صبح کو اُٹھ کر نہار منہ نیم گرم پانی کے دو یا چار گلاس پینا قبض کا بہترین علاج ہے۔

گنٹھیا جوڑوں کا درد

گنٹھیا جوڑوں کا درد (RHEUMATOID ARTHRITIS) ایک سوزش پیدا کرنے والی بیماری ہے جو درد‘ سوجن‘ اکڑا اور جوڑوں کی کارکردگی متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کی کئی خاص علامات ہیں جو کہ اسے دوسری اقسام کے آرتھرائٹس (ARTHRITIS) (جوڑوں کے درد) سے ممتاز کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر گنٹھیا ترتیب وار حملہ کرتی ہے یعنی اگر ایک گھٹنا یا ہاتھ اس سے متاثر ہوا ہے تو دوسرا گھٹنا یا ہاتھ اسی طرح متاثر ہوگا۔ یہ بیماری عام طور پر کلائی کے جوڑوں اور ہاتھ کے نزدیک انگلیوں کے جوڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ جوڑوں کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بیماری کے شکار لوگوں کو تھکن محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بخار ہو جاتا ہے یا مجموعی طور پر صحتمند نہ ہونے کا احساس حاوی رہتا ہے۔ گنٹھیا لوگوں پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں میں کچھ ماہ کے اندر ایک سال میں یا دو سال تک رہ کر بغیر کسی قابل ذکر نقصان کے ختم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں میں اس بیماری کی ہلکی اور کم شدید علامات ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر ہو جاتی ہیں اور کچھ عرصہ میں یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر محسوس ہونے لگتی ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں میں اس کی شدید ترین شکل دیکھنے میں آئی ہے جو بیشتر وقت متحرک ہوتی ہے اور زندگی میں کئی سال تک برقرار رہتی ہے اور جوڑوں کے سخت نقصان اور معذوری کا باعث بنتی ہے۔

گنٹھیا کی علامات
-1 ڈھیلے‘ گرم اور سوجے ہوئے جوڑ
-2 متاثرہ جوڑوں پر ترتیب وار اثر
-3جوڑوں کی سوزش جو اکثر متاثر کرتی ہے کلائی اور ہاتھوں کے نزدیک انگلیوں کے جوڑوں کو بشمول گردن‘ کندھوں‘ کہنیوں ‘ کولہوں‘ گھٹنوں‘ ٹخنوں اور پاؤں کو
-4تھکن‘ وقتاً فوقتاً بخار ہونا اور ہر وقت بیماری کا عام احساس
-5صبح اٹھنے کے بعد تقریباً آدھے گھنٹے تک شدید اکڑا اور درد
-6علامات کئی سال تک برقرار رہیں۔
-7لوگوں میں بیماری کے ساتھ ساتھ علامات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
-8 اگرچہ گنٹھیا ( رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) لوگوں کی زندگی اور کارکردگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔ مگر ان کیلئے علاج کی جدید حکمت عملی جس میں درد کم کرنے والی دوائیں شامل ہوں‘ ایسی دوائیں جن سے جوڑوں کی کم ٹوٹ پھوٹ‘ ان کے آرام اور ورزش میں توازن اور مریضوں کی تربیت کے پروگرام اس بیماری سے متاثر لوگوں میں نئے سرے بہتر زندگی کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور وہ لوگ متحرک اور فعال زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ موجودہ سالوں میں جہاں رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس پر ریسرچ نے نیا رخ اختیار کیا ہے اس کے ساتھ ہی محققین نے اس بیماری کے علاج کے نئے اور بہتر طریقے بھی دریافت کئے ہیں۔

اس کے معاشی اور معاشرتی اثرات خواہ وہ کسی قسم کے آرتھرائٹس (ARTHRITIS) (جوڑوں کے درد) یا رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس کی وجہ سے ہوں نہ صرف افراد بلکہ قوم پر مرتب ہوتے ہیں۔

معاشی نقطہ نگاہ سے گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس ) کے علاج اور سرجری سے لاکھوں ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ روزانہ جوڑوں کا درد اس بیماری کی بڑی علامت ہے۔ اکثر لوگ اس وجہ سے ڈپریشن‘ بے چینی اور بے بسی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی روزمرہ سرگرمیاں گنٹھیا کی وجہ سے متاثر ہوتی ہیں۔ خاندانی ذمہ داریوں اور خوشیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم آرتھرائٹس کے خود تنظیمی پروگرام موجود ہیں جو لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ درد پر قابو پانے اور بیماری کے دوسرے اثرات سے نبردآزما ہونے میں اور ان کی آزادانہ زندگی گزارنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔

گنٹھیا کا درد کیسے بڑھتا اور پھیلتا ہے
جوڑ وہ مقام ہے جہاں دو ہڈیاں ملتی ہیں۔ ہڈیوں کے سروں پر کرکری ہڈی (CARTILAGE) ہوتی ہے جو دو ہڈیوں کی حرکت کو آسان بناتی ہے۔ جوڑ ایک کیپسول سے گھرا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا اور اس کو سہارا دیتا ہے۔ جوڑ کا کیپسول ایک بافت سے جڑا ہوتا ہے جس کو سائنووئیم(SYNOVIUM) کہتے ہیں جو کہ سائنوویل رطوبت (CYNOVIAL FLUID) پیدا کرتی ہے۔

سائنوویل مائع (SYNOVIAL FLUID )
یہ ایک شفاف مادہ ہوتا ہے جو (CARTILAGE) (کرکری ہڈی)‘ ہڈیوں اور جوائنٹ کیپسول کو تر کرتا ہے اور طاقت دیتا ہے۔

دوسری بہت سی رہمیٹیک (RHEUMATIC) بیماریوں کی طرح گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) بھی ایسی بیماری ہے جس میں انسان مدافعتی نظام اس کے خلاف کام کرنے لگتا ہے۔ عام طور پر ایک آدمی کا مدافعتی نظام جو اس کے جسم کو بیماریوں کے خلاف تحفظ دیتا ہے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کے جوڑوں کے ٹشوز پر حملہ کر دیتا ہے۔ سفید خلیے جو مدافعتی نظام جو اس کے جسم کو بیماریوں کے خلاف تحفظ دیتا ہے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کے جوڑوں کے ٹشوز پر حملہ کر دیتا ہے۔ سفید خلیے جو مدافعتی نظام کے کارکن ہیں۔ سائنوویئم کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور سوزش کا باعث بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گرمی‘ سوجن‘ سرخی اور درد ہوتا ہے جو رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس کی روایتی علامات ہیں۔ سوزش کے عمل کے دوران سائنوویئم (SYNOVIUM) گاڑھا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے جوڑ سوج جاتے ہیں اور چھونے سے اکڑا کا احساس ہوتا ہے۔

جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے سائنوویم (SYNOVIUM) پھیلتا جاتا ہے اور کرکری ہڈی(CARTILAGE) کے ساتھ جوڑ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ارد گرد کے پٹھے اور عضلات کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس ) ہڈیوں کیلئے بہت نقصان کاباعث ہوتا ہے یہاں تک کہ ہڈیوں میں کھوکھلا پن آسٹیوپروسیس(OSTEOPOROSIS) پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

جوں جوں گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) بڑھتا ہے۔ سوزش زدہ سائنوویم (SYNOVIUM) پھیلتا جاتا ہے اور (CARTILAGE)کرکری وہڈی اور جوڑ کو تباہ کر دیتا ہے۔ ارد گرد کے پٹھے اور عضلات جو جوڑ کو سہارا دیتے اور قائم رکھتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں اور عام طور پر کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں شدید درد ہوتا ہے اور جوڑ متاثر ہوتے ہیں۔

محققین (RESEARCHERS) اس بات پر متفق ہیں کہ گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )سے متاثر شخص کی صحت پہلے یا دوسرے سال ہی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے اس کی بروقت تشخیص اور علاج کی اشد ضرورت ہے۔

اس بیماری سے متاثر کچھ لوگوں میں جوڑوں کی خرابی کے علاوہ دوسری علامات بھی پائی جاتی ہیں۔ بہت سے گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کے مریض خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں یا ان میں خون کے سرخ خلیے بننے کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ گردن کے درد منہ اور آنکھوں کی خشکی سے متاثر ہوتے ہیں۔ بہت کم لوگوں میں خون کی نالیوں‘ پھیپھڑوں کی بیرونی جھلی اور دل کی بیرونی جھلی کی سوزش ہوتی ہے۔

جوڑوں کا درد ہر نسل اور جنس کے لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بیماری درمیانی عمر کے لوگوں سے شروع ہوتی ہے لیکن بڑی عمر کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں اور نوجوانوں میں بھی بڑھ سکتی ہے۔ دوسری اقسام کے آرتھرائٹس کی طرح رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس بھی مردوں کی نسبت عورتوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ متاثرہ خواتین کی تعداد متاثر مردوں سے دو یا تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق 2.1 ملین لوگ یا امریکہ میں بالغوں کی آبادی کا 0.5 سے 1 فیصد تک گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )سے متاثر ہے۔ سائنسدان اب تک صحیح طور پر یہ نہیں جان سکے کہ انسان کا مدافعتی نظام اس کے خلاف کام کرنا کیوں شروع کر دیتا ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں کی تحقیق کے بعد یہ چند عوامل منظر عام پر آئے ہیں۔

جینیاتی (وراثتی) عوامل
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کچھ جینز مدافعتی نظام میں گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کے رحجان کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں اور مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

کچھ متاثرین میں یہ خاص جینز موجود نہیں ہوتے اور کچھ لوگوں میں ان کے جینز کی موجودگی بھی بیماری کو نہیں بڑھاتی۔ کچھ متنازعہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی جینیاتی ساخت اس کا باعث ہے کہ آیا اس کے اندر یہ بیماری نشوونما پاتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ تاہم اس میں ایک سے زیادہ جینز ملوث ہو سکتے ہیں کہ کسی شخص کو یہ بیماری متاثر کرے گی یا نہیں یا اس کی شدت کتنی ہو گی۔

ماحولیاتی عوامل: سائنسدانوں کے خیال کے مطابق جینیاتی طور پر اس بیماری کے حامل لوگوں میں کچھ بیرونی عوامل اور اس کی بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس میں وائرل اور بیکٹیریل انفیکشن ہو سکتے ہیں۔ مگر اب تک اصل وجہ کا پتہ نہیں چل سکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس چھوت کی بیماری ہے اور یہ ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتی ہے۔

دیگر عوامل بعض سائنسدانوں کے خیال میں ہارمونی نظام کی تبدیلیاں بھی اس بیماری میں کارفرما ہوتی ہیں۔ خواتین میں مردوں کی نسبت یہ بیماری جلد بڑھتی ہے۔ حمل کے دوران اور بعد یہ بیماری بڑھ بھی سکتی ہے۔ بچے کو دودھ پلانے کے عمل کے دوران بھی اس بیماری میں اضافے کا امکان ہے۔

اگرچہ تمام جوابات اب تک کسی کے علم میں نہیں مگر ایک بات یقینی ہے کہ یہ مرض بہت سے عوامل کے باہم ملاپ کا نتیجہ ہے۔ محققین ان عوامل پر تحقیق میں مصروف ہیں۔

تشخیص: گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) کی تشخیص اور علاج کیلئے مریضوں اور معالجین کی باہمی کوشش کا بہت عمل دخل ہے۔ ایک شخص اپنے خاندانی معالج یا کسی رہیماٹالوجسٹ کے پاس جا سکتا ہے۔ وہ اپنے مرض کے بارے میں مشورہ کر سکے۔ رہیماٹولوجسٹ ایسا ڈاکٹر ہوتا ہے جو جوڑوں کے درد اور دیگر بیماریوں کا ماہر ہو جن میں ہڈیاں پٹھے اور جوڑ شامل ہیں۔

اس کے علاج میں دوسرے پیشہ ور بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جن میں نرسیں اور فزیوتھراپسٹ آرتھوپیڈک سرجن‘ ماہر نفسیات ‘ہومیوپیتھک ڈاکٹر اور سوشل ورکر شامل ہیں۔

گنٹھیا(رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کی تشخیص ابتدائی مراحل میں کئی وجوہات کی بنا پر مشکل ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے اس بیماری کیلئے کوئی خاص ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ مختلف لوگوں میں مرض کی مختلف علامات ہوتی ہیں اور کچھ لوگوں میں اس مرض کی شدت دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس مرض کی علامات بعض اوقات عام قسم کے جوڑوں کے درد اور آرتھرائٹس سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اسلئے بعض اوقات اس کی دوسری حالتوں کو دریافت کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ آخرکار تمام علامات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدائی مراحل میں صرف چند علامات موجود ہوتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ڈاکٹر مختلف طریقوں سے اس کی تشخیص کرتے ہیں۔

میڈیکل ہسٹری: یہ مریض کی زبانی ان علامات کا بیان ہوتا ہے کہ یہ مرض کب اور کیسے شروع ہوا۔ مریض اور معالج کے درمیان بہتر رابطہ اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔

مثال کے طور پر مریض کا جوڑوں کے اکڑا‘ سوجن جوڑوں کی کارکردگی کے بارے میں بیان اور یہ سب کچھ کس طرح وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ یہ ڈاکٹر کو مرض کے بارے میں ابتدائی اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے اور یہ اندازہ لگانا آسان ہوتا ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ کیسے تبدیل ہوتا ہے۔

طبی معائنہ: طبی معائنہ میں ڈاکٹر جوڑوں جلد عضلات اور پٹھوں کی قوت کا اندازہ لگاتا ہے۔

لیبارٹری میں تشخیص: ایک عام امتحان رہیماٹائیڈ فیکٹر(rheumatoid factor) کیلئے ایک اینٹی باڈی کا ٹیسٹ ہوتا ہے جو گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس) کے مریض کے خون میں موجود ہوتا ہے۔ (اینٹی باڈی ایک خاص قسم کی پروٹین ہوتی ہے جس کو مدافعتی نظام پیدا کرتا ہے۔ بیرونی عوامل کے خلاف جسم میں مدافعت پیدا کرنے کیلئے) تمام گنٹھیا (رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس )کے مریضوں میں رہیماٹائیڈ فیکٹر کا نتیجہ +Ve نہیں ہوتا۔ خاص طور پر بیماری کے شروع دنوں میں۔ کچھ لوگوں میں بیماری زیادہ نہ بڑھنے کی صورت میں رہیماٹائیڈ فیکٹر کا نتیجہ +Ve نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس بیماری میں وائٹ بلڈ کانٹ(white blood cell count)‘ انیمیا (anemia)کا ٹیسٹ اور سیڈ ریٹ (sedimentation rate (often called the sed rate))ٹیسٹ بھی کئے جاتے ہیں۔ سیڈ ریٹ ٹیسٹ جسم میں سوزش کی مقدار کا اندازہ لگانے کیلئے کیا جاتا ہے۔

ایکس ریز: جوڑوں میں ٹوٹ پھوٹ کی حالت کو دیکھنے کیلئے ایکس ریز کئے جاتے ہیں۔ بیماری کی ابتدائی حالت میں جس وقت ہڈیوں کے بھربھرا ہونے کا مشاہدہ نہ ہو ایکس رے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن بعد میں بیماری میں اضافہ اور شدت کا اندازہ لگانے کیلئے ایکس ریز استعمال کئے جاتے ہیں۔

نزلہ زکام اسباب احتیاط اور علاج

صحت کا مناسب شعور نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نزلے و زکام کو معمولی بیماری سمجھ کر نظر انداز کردیتی ہے اور اگر کچھ لوگ اس طرف دھیان بھی دیں تو ایک جوشاندہ پی لینے یا کوئی ایلوپیتھک گولی کھا لینے کو کافی خیال کرلیتے ہیں۔

حالاں کہ یہ مرض اتنا غیر اہم بھی نہیں جتنا کہ ہم تصور کرتے ہیں، اور اس کے علاج پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر نزلہ زکام کو موجودہ دور کی سب سے نقصان دہ بیماری کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیوں کہ طبی ماہرین کے نزدیک اگر نزلے کا بر وقت اور مناسب سدِ باب نہ کیا جائے تو یہ کئی موذی اور تکلیف دہ عوارض کو بدنِ انسانی پر مْسلط کرنے کا ذریعہ بن کر تن درستی اور صحت مندی کو کھا جاتا ہے۔

نزلے کے اثرات: مسلسل نزلہ رہنے سے قبل از وقت بالوں کا سفید ہونا عام دیکھا جا سکتا ہے۔ قوتِ بصارت میں کمی کا سبب بن کر زندگی کی رنگینیوں اور رونقوں کو مدھم کر دیتا ہے۔ دماغی صلاحیتوں اور قابلیتوں پر اثرانداز ہوکر کام یابیوں کے حصول کو مشکل تر کردیتا ہے۔ متواتر گلے میں لیس دار رطوبتوں کے گرتے رہنے سے آواز کی خوب صورتی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ آدمی کسی محفل میں پر سکون ہو کر بات کرنے سے قاصر رہنے لگتا ہے۔ ہر وقت کھنگورے مارنے کی عادت اسے نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ اعصابی و عضلاتی ضعف لاحق ہو کر انسان کو وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز پر لاکھڑا کرتا ہے۔

دانتوں کا پیلا پن ،دانتوں میں کھوڑ پیدا ہو نا، ورمِ حلق،کانوں کے امراض پیدا ہونا، ناک کے افعال میں نقص واقع ہونا جیسے ناک کے نتھنے بند ہونا، ناک کے ذریعے سانس لینے میں دقت ہونا وغیرہ جیسے مسائل کا باعث بھی دائمی نزلہ ہی بنتا ہے۔ علاوہ ازیںMaxillary sinucitis جیسا موذی اور تکلیف دہ عارضہ بھی اسی مرض کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ تنفسی امراض میں سے سانس کی نالیوں کا انفیکشن بھی گلے میں بلغمی رطوبتوں کے گرتے رہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بلغمی رطوبت کی وجہ سے معدہ بھی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ بھو ک میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ جس کے نتیجے میں پورا بدنِ انسانی کمزوری کی گرفت میں آجاتا ہے۔

نزلے کی اقسام: نزلے کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ نزلہ بارد، یعنی سردی کی زیادتی سے ہونے والا نزلہ۔ نزلہ حار، یعنی مزاج میں گرمی بڑھ جانے کی وجہ سے نزلے کا لاحق ہونا۔ دائمی یا مستقل رہنے والہ نزلہ جسے عوام الناس کیرا بھی کہتے ہیں یہی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ وبائی نزلہ زکام اکثرو بیشتر موسم بدلتے ہی حملہ آور ہوتا ہے اور اس کی زد سے کوئی خوش نصیب ہی بچ پاتا ہے۔ وبائی زکام جسے عرفِ عام میں فلو بھی کہا جاتا ہے، ایک وائرل مرض ہے جو چھوت کی شکل میں ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہو تا ہے۔ وبائی زکام یا نزلے کو ہم میعادی بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ عام طور پر 10 سے 15 ایام میں خود بخود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم وبائی زکام اور نزلۂ حار سے بچنے کی تراکیب ، گھریلو علاج اور غذائی تدابیر کا ذکر کررہے ہیں۔

علامات: جب زکام حملہ آور ہو تا ہے تو جسم میں ہلکے ہلکے درد کا احساس ہو نے لگتا ہے۔ آنکھوں میں سرخی ظاہر ہو نے لگتی ہے۔ سر میں بھاری پن اور درد محسوس ہوتا ہے۔ جسم میں سستی اور کمزوری کا غلبہ بڑھنے سے کسی کام کا جی نہیں چاہتا۔ بْخار بھی ہو جاتا ہے۔ بھوک نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ پانی کی بار بار طلب تو ہو تی ہے مگر پینے کو جی نہیں چاہتا۔ ناک اور آنکھوں سے پتلی اور خراش دار رطوبت بہتی رہتی ہے۔ بار بار پونچھنے کی وجہ سے ناک سرخ ہو جاتی ہے۔ چہرے کی رنگت میں بھی سرخی در آ تی ہے۔

وجوہات: جب جسم موسمی تبدیلی کو قبول نہ کرسکے تو ردعمل کے طور پر بعض اوقات زکام کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ متواتر تیز دھوپ اور گرمی میں کام کرنے سے بھی انسان نزلہ و زکام کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ گرم و خشک اور مرغن ،تلی اور بھْنی ہوئی غذائوں کا زیادہ استعمال بھی اس بیماری کو دعوت دیتا ہے۔ علاوہ ازیں بڑا گوشت، بینگن، دال مسور ، چاول ،بریانی ،پلائو، چاکلیٹ، آملیٹ، بیکری کی مصنوعات ، بازاری مشروبات اور تیز مسالے والی غذاؤں کا خوراک میں شامل کرنا بھی گرمی کے نزلے اور وبائی زکام کا باعث بنتا ہے۔ سگریٹ نوشی بھی نزلہ و زکام کے حملے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ گرمیوں میں گرم کھانے کے ساتھ ٹھنڈا یخ پانی پینا، ٹھنڈا پانی پی کر گرم چائے یا کافی و قہوہ وغیرہ کا استعمال کرنا، دھوپ میں سے آتے ہی ٹھنڈے پانی سے نہانا ،زیادہ دیر تک ننگے سر دھوپ میں پھرنے سے بھی نزلہ زکام کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

عمومی احتیاط: ’’احتیاط بہتر ہے علاج سے‘‘ کے عالمگیر کلیے پر عمل کرتے ہوئے ہم خاطر خواہ حد تک نزلہ و زکام سمیت کئی دیگر موسمی اور وبائی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ موسم کی تبدیلی کے مخصوص وقت سے چند روز قبل ہی اس کی مناسبت سے اپنی غذا، لباس اور رہن سہن میں تبدیلی کرلینی چاہیے۔ شہد، قادرِمْطلق کی ایک نعمتِ بے بہا ہے۔ اس میں حکیمِ کائنات نے کمال قْوتِ شفا یابی رکھی ہے۔

شہد کا باقاعدہ استعمال بیماریوں کے خلاف بدنِ انسانی کی قوتِ مْدافعت کو مضبوط کرتا ہے۔ موسم کی مناسبت سے اس کا استعمال کیا جائے تو یہ ہمیں کئی خطرناک امراض کے حملوں سے بچائے رکھتا ہے۔ موسمِ گرما میں شہد کے 2 چمچے سادہ پانی میں حل کرکے اور موسمِ سرما میں نیم گرم پانی میں ملا کر نہار منہ پینا بے شمار فوائد کا حامل ہو تا ہے۔ تیز دھوپ میں ننگے سر گھومنے پھرنے سے پرہیز کریں۔ باہر جاتے ہوئے سر اور گردن ڈھانپ کر رکھیں۔ گرمیوں میں باہر سے آتے ہی نہانے اور ٹھنڈا پانی پینے سے اجتناب کریں۔

گھریلو تراکیب: نزلے کے اچانک حملہ آور ہو جانے کی صورت میں درج ذیل جوشاندہ بنا کر 2 اور 3خوراکیں پینے سے ہی اس کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے ۔۔۔گْلِ بنفشہ10 گرام،گائوز بان 5 گرام، لہسوڑیاں 3 گرام _ تینوں اجزا کو2 کپ پانی میں پکا کر حسبِ ضرورت چینی ملا کر 4گھنٹے کے وقفے سے ایک ایک کپ پی لیں۔

۔۔۔گْلِ بنفشہ10 گرام، گْلِ سْرخ10 گرام، برگ گائوزبان10 گرام، اْسطوخودوس 10 گرام، چھلکا ہرڈ زرد10 گرام _ سب اجزا کو باریک پیس کر ہم وزن مصری ملا کر رکھیں۔ 3 گرام خوراک دن میں 3 بار سادہ پانی سے استعمال کریں۔ اس سفوف کو حفظِ ما تقدم کے طور پر بھی استعمال کیا جائے تو کا فی حد تک نزلے اور زکام کے حملے سے بچت ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں درج ذیل شربت کا متواتر کئی روز تک استعمال آپ کو دائمی نزلے سے بھی نجات دلادے گا۔۔۔ املتاس15 گرام، ملٹھی 10 گرام،گائوز بان 10 گرام، سپستاں 10 گرام، عناب10 عدد_ تمام اشیاء کو 2کلو پانی میں پکائیں جب عرق1\2کلو رہ جائے تو 1کلو چینی میں قوام بنا کر ٹھنڈا ہونے پر صاف اور خشک بوتل میں محفوظ کرلیں۔ صبح، دوپہر اور شام قبل از غذا 2 چمچے کھانے والے پیتے رہیں ۔

جڑی بوٹیوں سے صحت اور علاج

جڑی بوٹیوں کوصحت اور علاج میں جس قدر اہمیت حاصل ہے وہ کسی طبقہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جڑی بوٹیوں کو معالجات میں جس قدر اہمیت حاصل ہے وہ طبی طبقہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جڑی بوٹیوں میں ہر ایک مرض کو دور کرنے کی زیادہ طاقت موجود ہے جو اپنے غیر معمولی اثرات سے مٹی کو سونے میں تبدیلی کر سکتی ہیں اور انسان تو انسان ان جڑی بوٹیوں نے لوہا تانبا پتھر اور جواہرات تک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا اور خطرناک زہروں کو اپنا تابع اور مطیع بنا کر امرت بنایا ہے غرض اپنی بے پناہ خداد طاقت کے بل پر انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہے۔
اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جڑی بوٹیاں بھی اسی طرح سانس لیتی اور زندہ رہتی ہيں بلکہ بعض سائنسدانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ نباتات میں چھونے اور سننے کی طاقت موجود ہے جیسا کہ لاجونتی چھوئی موئی بوٹی ہے۔ اگر اس بوٹی کو آپ ذرا ہاتھ لگآئيں تو آپ کے چھوتے ہی یہ فورا سکڑ جاۓ گـی لیکن اس کے برعکس اگر کوئی عورت اس کے پتوں کو چھو لے تو ان میں کسی قسم کا سکڑاؤ پیدا نہیں ہو گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بوٹی یا کسی بھی نباتات میں جہاں سننے کی طاقت موجود ہے وہاں دیکھنے کی طاقت بھی موجود ہے۔ جڑی بوٹیوں کی زبردست طاقت کے باوجود دیسی طب کی یہ بدقسمتی کہۓ کہ معالجین نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی ہے اور زیادہ تر مغربی ادویات سازوں کی ادویات پر ہی قانع ہو کر رہ گۓ ہیں۔ ہمارے اس جمود و غفلت سے مغربی دوا سازوں نے فائدہ اٹھایا اور ہمارے ورثہ کو سائنٹیفک طریق سے دوسری شکل میں تبدیل کر کے بہت مہنگی اور زیادہ سے زیادہ مہنگی قیمت پر فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
اگر تھوڑا غور فرما ئیں تو یہی جمالگوٹہ جو کثرت سے یہاں پیدا ہوتا ہے کروٹن آئيل بن کر آ جاتا ہے ادراک (سونٹھ) سے ٹنکچر زنجی برس ملٹھی سے گلیسریزا اسی طرح پودینہ اجوائن لونگ سورنجا سونف ارنڈ وغیرہ سینکڑوں ہندوستانی جڑی بوٹیاں جو ہماری سرزمینوں کی پیداوار ہیں جن پر محنت ہمارے آباؤاجداد نے کی، اس کے فوائد اور خواص کو پرکھا اور اس کی تاثیر پرکھی ہماری کم علمی ہےجسے مغرب نے ہماری عدم توجہی سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ چالاکی سے مغربی جامہ پہنا دیا ہے۔ ہمارے اس زمانے کے حکماء پرانے زمانے کے حکماء کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے نہ ہی ادویہ سازی میں نہ ہی محنت میں۔ ہماری ساری نسل ہی شارٹ کٹ کی عادی بن چکی ہے، اگر مقررہ مقدار اور مدت سے رگڑائی نہیں کرسکتی تو الیکٹرک کھرل بنالئے، اگر اپلوں اور کوئلوں سے دوا تیارکرنا تھی تو سوئی گیس کا چولھا استعمال کرلیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دواؤں کی اثرپذیری میں فرق پڑگیا۔
دوسرے مغربی دواسازوں نے لوگوں کو فوری اثر دینے والے مرکبات سٹی رائڈز دینے شروع کردئے اور لاعلمی کی بنا پر لوگوں نے ان کا استعمال شروع کردیا۔ جو مرض کو اندر ہی دبا دیتے ہیں، وقتی فائدہ پہنچ گیا لیکن بے چاروں کو یہ علم نہیں ریا کہ یہ وقتی مفاد آئندہ جاکر کتنا بھیانک روپ دھارے گا۔ کینسر کی شکل اختیار کرے گا یا فالج کا روپ دھارے گا۔ 
پیارے لوگوں اپنی صحت سے پیار کرو اور طاقتور سٹرائیڈ کا استعمال ترک کردو، اللہ آپکو شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔