گردے فیل ہونے کا ہربل علاج

حیات دراصل اک کیمیائی عمل ہے اسے جاری رکھنے کیلئے جسم میں مسلسل کیمیائی عمل جاری رہتا ہے اور ہر کیمیائی عمل کی طرف سے اس کے نتیجے میں بھی کچھ ایسے کیمائی عناصر وجود میں آتے ہیں جو ہمارے جسم کیلئے نقصان دہ ہیں۔ گردہ ان غیر ضروری اور ضررساں کیمیائی عناصر کا اخراج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں پانی کی مقدار کو معتدل سطح پر رکھتا ہے اور کچھ اہم ہارمون بھی خارج کرتا ہے جن میں سے ایک خون کی افزائش کیلئے ضروری ہے اور دوسرا ہڈیوں کو مستحکم رکھنے اور کیلشئیم کو جسم میں جذب کرنے کا ذمہ دار ہے۔
گردوں کا فعل
انسان کے جسم میں دو گردے پیٹ میں پسلیوں سے ذرا نیچے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں جانب واقع ہوتے ہیں۔ ان کا حجم مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی شریان‘ اعورطا‘ سے خون کی دو نالیاں ان کو خون پہنچاتی ہیں۔ گردے میں پہنچ کر خون کی یہ نالیاں درخت کی شاخوں کی طرح تقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بالکل آخیر میں یہ بال برابر رہ جاتی ہیں اور اس کے بعد بھی مزید تقسیم ہو کر اتنی مہین ہو جاتی ہیں کہ انہیں صرف خورد بین سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے پر یہ مہین عروق شعر یہ ایک گچھے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ گچھا ایک پیالے نما کیپسول میں ملفوف ہوتا ہے جب خون ایک خاص پریشر ے ساتھ خون کی ان مہین نالیوں سے گزرتا ہے تو خون‘ جو ٹھوس ذرات اور رقیق پانی نما محلول کا مرکب ہے۔ میں سے صرف محلول چھن کر اس پیالے میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ ایسے لاکھوں پیالوں میں جمع ہونے والا محلول مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے پیشاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ان پیالوں سے پیشاب جمع کرنے والی نالیاں ایک دوسرے سے جڑتی چلی جاتی ہیں اور بدریج ایک بڑی نالی بن جاتی ہے جو گردے سے نکل کر مثانے سے جا ملتی ہے۔ گردے انسانی صحت اور زندگی کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ چار اعضاء ایسے ہیں جن کے مکمل طور پر ناکارہ ہونے کے بعد زندگی ممکن نہیں۔ اس میں دل‘ پھیپھڑے‘ جگر اور گردے شامل ہیں۔ دماغ کی اہمیت اپنی جگہ ہے مگر اس کے مکمل طور پر ناکارہ ہونے کے باوجود بھی ایک لمبے عرصے کیلئے زندگی ممکن ہے مگر ایسی زندگی نباتاتی حیات کی طرح ہو گی۔
گردے کی خرابی کے نتائج
گردے کی خرابی سے جسم میں ایسے کیمیائی مادے جمع ہو جاتے ہیں جو ہمارے جسم کیلے زہر کا اثر رکھتے ہیں۔ اگر ان مادوں کو خارج نہ کیا جا سکے تو خون میں ان کی سطح اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ان کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے اگرچہ مادے کئی قسم کے ہیں مگر عام لوگوں کیلئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ڈاکٹر خون میں ’’یوریا‘‘ کی مقدار سے اس کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یوریا کا لفظ یورین سے بنا ہے اگر گردے کے ناکارہ ہونے سے جو طبی مسئلہ کھڑاہوتا ہے اسے ؂؂یوریا پائزننگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ گردے کے کام میں انسانی جسم میں بہت سے کیمیائی مادوں کی صحیح سطح برقرار رکھنا بھی شامل ہے اس لئے اس کے ناکارہ ہونے کے بعد ایسے کئی کیمیائی عناصر جو عام حالت میں ہمارے خون کا حصہ ہیں ان کی سطح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے اور یہ زندگی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ایسا ایک عنصر پوٹاسیم ہے اگر پوٹاسیم کی سطح ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے تو یہ زندگی کیلئے بے حد خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسی لئے گردے کے مریضوں کو خاص طور پر ایسی غذا سے سختی سے پرہیز بتایا جاتا ہے جن میں پوٹاسیم کی مقدار زیادہ ہو جیسے کیلے‘ ٹماٹر اور مسمی وغیرہ۔
گردے جسم میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والے تیزاب کا بھی سدباب کرتے ہیں۔ گردوں کی خرابی سے خون میں تیزابیت خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ گردے پیشاب کی صورت میں پانی کے اخراج سے جسم کو نارمل حالت میں رکھتے ہیں۔ جب گردے پانی کا اخراج نہیں کر سکتے تو جسم میں پانی جمع ہو جاتا ہے جس سے نہ صرف ظاہری طور پر سوجن ہو جاتی ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی پھیپھڑوں‘ پیٹ اور دل کی جھلی میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا ہے۔
گردے کی خرابی کے اسباب
گردوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ذیابیطس ہے اور یہ جسم کے ہر عضو کو متاثر کرتی ہے۔ جس پر اس کے اثرات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ عروق شعریہ کو برباد کر دیتی ہے چونکہ گردوں میں ان نالیوں کا جود سب سے زیادہ ہے اور گردے کا کام ہی ان عروق شعریہ پر مشتمل ہے۔ اس لئے اوسطاً سترہ سال کے بعد ذیابیطس کے بیشتر مریض گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ ذیابیطس کی شروعات ہی میں اس پر سختی سے قابو پایا جائے تاکہ گردوں پر اس کے اثرات سے بچا جا سکے۔
گردے کی خرابی کی دوسری بڑی وجہ خون کے دباؤ کی زیادتی ہے۔ بلڈ پریشر یوں تو ہر عمر میں مضر ہے مگر کم عمری میں بلڈ پریشر کا ہونا خاص طور پر خطرناک ہے اور اس کا فوری اور کامیاب علاج نہ کیا جائے تو یہ عام طور پر گردوں کی خرابی کا سبب بن جاتا ہے۔ نوجوانوں یا بچوں میں گردوں کی خرابی کے اسباب میں ایسی بیماریاں جو جسم میں اینٹی بادیز بناتی ہیں یا پھر گردوں میں پیدائشی نقص شامل ہیں۔ کچھ بیماریاں موروثی بھی ہیں جیسے پالی سسٹک کڈنی‘ کبھی کبھی گردے میں پتھری‘ پیشاب کے بہاؤ اور اس کے راستے میں رکاوٹ اور اس میں بار بار انفیکشن ہونا بھی گردے کے ناکارہ ہونے کا سبب ہو سکتا ہے۔
بیماری کی علامات
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت عرصے تک گردے کی خرابی کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں جب تک گردہ سنگین حد تک ناکارہ نہ ہو جائے مریض کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی اور وہ اپنے اندر سلگنے والی اس آگ سے بے خبر ہوتا ہے۔ گردے کی خرابی کے اعلیٰ مدارج میں بھوک نہ لگنا‘ غذا کی لذت سے محرومی‘ کمزوری‘ خون کی کمی اور دل مالش کرنا شامل ہیں۔ جب بیماری مزید بڑھتی ہے تو سر میں درد اور قے کی شکایت ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے تیسری دنیا میں زیادہ تر مریضوں کے گردوں کی خرابی کی تشخیص اسی مرحلے پر ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ باقاعدگی سے جنرل چیک اپ کا دستور ہے اس لئے یہاں عام طور پر جلد ہی گردے کی بیماری کا پتہ لگ جاتا ہے۔ ہر مریض یہ پوچھتا ہے کہ کیا میرے دونوں گردے خراب ہیں۔ حقیقت میں جب دونوں ہی گردے خراب ہوں تبھی یہ بیماری ہوتی ہے کیونکہ ایک گردے سے انسان نارمل حالت میں مکمل اور بھرپور زندگی گزار سکتا ہے۔
گردے کے اچانک خرابی
گردے اگر طویل عرصے پر محیط پیچیدگیوں کے باعث ایک دفعہ خراب ہو جائیں تو ان کا ٹھیک ہونا ایلوپیتھی طریق علاج میں ناممکن ہے لیکن گردے اچانک بھی خراب ہو سکتے ہیں اگر اس اچانک خرابی سے پہلے انسان بالکل نارمل صحت کا مالک ہو اور اس کے گردے بھی ٹھیک ہوں تو عام طور پر گردے چھ ہفتوں میں دوبارہ کام کرنے لگتے ہیں مگر اس دوران جب گردے کام چھوڑ دیتے ہیں تو بھی زندہ رہنے کیلئے نہ صرف بے حد پیچیدہ علاج‘ مانیٹرنگ اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وقتی طور پر ڈائلسیز کی ضرورت بھی پڑتی ہے تاکہ جس کی کیمیائی کیفیت اور پانی کی مقدار معمول پر رکھی جا سکے۔

گردے فیل ہونے کا ہربل علاج

ایلوپیتھی میں گردے اگر فیل ہوجائیں توما سوائے ڈائیلسس کے ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن اس کا مستقل علاج موجود ہے جس کے 6 ماہ کے استعمال سے گردے اپنی اصل حالت میں واپس آجاتے ہیں۔ ہر ماہ علاج کا خرچ تقریبا 3000 ہے۔ اگر آپ کے کسی عزیز اس مرحلے سے گزر رہے ہیں تو علاج کے لئے اس نمبر پر رابطہ کرلیں۔ ڈاکٹر ارشد ملک
03006397500

1 comment:

  1. حضور نسخہ بھی یہاں درج کر دیتے تو لوگوں کا بھلا ھوتا اور آپکا صدقہ جاریہ.

    ReplyDelete